راوت قلعہ – راولپنڈی کا بھولا بسرا تاریخی قلعہ | مکمل تفصیل

راوت قلعہ – راولپنڈی کا بھولا بسرا تاریخی قلعہ | مکمل تفصیل
راوت قلعہ – راولپنڈی کا بھولا بسرا تاریخی قلعہ | مکمل تفصیل

راوت قلعہ – راولپنڈی کا بھولا بسرا تاریخی قلعہ

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو تاریخی ورثے سے مالا مال ہے۔ یہاں ہر مقام، ہر شہر اور ہر بستی میں تاریخ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ان تاریخی مقامات میں قلعے خاص اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ نہ صرف دفاعی حکمتِ عملی کی علامت ہوتے تھے بلکہ قوموں کی عزت، وقار اور طاقت کی نمائندگی بھی کرتے تھے۔ انہی تاریخی خزانوں میں سے ایک راوت قلعہ ہے، جو راولپنڈی شہر کے قریب واقع ہے۔

راوت قلعہ کا محلِ وقوع

راوت قلعہ راولپنڈی سے تقریباً 17 کلومیٹر جنوب مشرق میں جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ یہ قلعہ آج کے مصروف شہروں کی گہما گہمی سے ذرا ہٹ کر، خاموشی اور تنہائی میں اپنی عظمتِ رفتہ کی گواہی دے رہا ہے۔ یہاں تک پہنچنا آسان ہے اور راولپنڈی یا اسلام آباد سے مختصر ڈرائیو کے ذریعے یہاں پہنچا جا سکتا ہے۔

قلعے کی تعمیر اور تاریخ

راوت قلعہ کی تعمیر 16ویں صدی میں گکھڑ قبیلے نے کی تھی، جو اس خطے کے طاقتور اور بہادر قبائل میں شمار ہوتا تھا۔ گکھڑوں نے اس قلعے کو مغلوں اور خاص طور پر افغان حملہ آوروں سے دفاع کے لیے تعمیر کیا۔ قلعے کی تعمیر اس وقت کی دفاعی ضروریات کے مطابق کی گئی، جس میں اونچی دیواریں، قلعہ بند دروازے اور چوکی دار برج شامل تھے۔

اس قلعے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہاں سلطان سارنگ خان کی قبر بھی موجود ہے۔ وہ گکھڑ قبیلے کے ایک عظیم سردار تھے جنہوں نے شیر شاہ سوری کے خلاف جرأت مندانہ مزاحمت کی اور بالآخر شہادت پائی۔ ان کی شہادت اس قلعے کو مزید اہمیت بخشتی ہے۔

راوت قلعہ اور شیر شاہ سوری کی جنگ

1546ء میں جب افغان بادشاہ شیر شاہ سوری ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو گکھڑ سردار سلطان سارنگ خان نے اس کی مزاحمت کی۔ اگرچہ گکھڑ قبیلہ نسبتاً چھوٹا تھا، لیکن ان کی دلیری نے دشمن کے لیے مشکلات پیدا کر دیں۔ تاہم شیر شاہ سوری کی فوجی طاقت کے آگے وہ زیادہ دیر ٹھہر نہ سکے۔ اس جنگ میں سلطان سارنگ خان کو گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں شہید کر دیا گیا۔ ان کی قربانی کو آج بھی راوت قلعہ میں ان کی قبر کے ذریعے یاد رکھا جاتا ہے۔

قلعے کی تعمیراتی خصوصیات

راوت قلعہ دفاعی اصولوں کے مطابق مستطیل شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی اونچی دیواریں اور برج دشمن کے حملوں کو روکنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ قلعے کے اندرونی حصے میں ایک پرانی مسجد، کئی قبریں اور ایک چھوٹا سا میدان موجود ہے۔ مسجد کی تین گنبدوں والی چھت آج بھی قلعے کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہی ہے۔

  • قلعے کی دیواریں: اونچی اور موٹی دیواریں، جو گھوڑوں اور توپوں کے حملوں کو روک سکتی تھیں۔
  • برج: دیواروں کے کونے پر بنائے گئے نگران برج جہاں سے دشمن کی نگرانی کی جاتی تھی۔
  • مسجد: قلعے کے اندر موجود ایک پرانی مسجد جو عبادت کے ساتھ ساتھ روحانی مرکز بھی تھی۔
  • قبر: سلطان سارنگ خان کی قبر آج بھی قلعے کے اندر موجود ہے، جو زائرین کے لیے مرکزِ عقیدت ہے۔

ثقافتی اور قومی اہمیت

راوت قلعہ صرف ایک پرانی عمارت نہیں بلکہ ہماری قومی شناخت، قربانی، اور مزاحمت کی علامت ہے۔ سلطان سارنگ خان کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آزادی اور خودمختاری آسانی سے نہیں ملتیں، بلکہ ان کے لیے بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ راوت قلعہ ہماری تاریخ کا وہ صفحہ ہے جو آج کے نوجوانوں کو اپنی تاریخ سے جوڑتا ہے۔

موجودہ حالت اور حکومتی عدم توجہی

بدقسمتی سے راوت قلعہ آج کے دور میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ حکومتی ادارے اس کی مرمت اور حفاظت کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے۔ نہ تو یہاں سیاحوں کے لیے مناسب سہولیات موجود ہیں اور نہ ہی اس کی مرمت کے آثار نظر آتے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو یہ تاریخی ورثہ آنے والی نسلوں کے لیے صرف کتابوں تک محدود ہو جائے گا۔

سیاحت کے لیے مفید معلومات

  • راوت قلعہ دیکھنے کے لیے بہترین وقت صبح یا شام کا ہے، جب دھوپ نرم ہو۔
  • کیمرہ ضرور ساتھ رکھیں تاکہ اس تاریخی مقام کی خوبصورتی کو محفوظ کیا جا سکے۔
  • پانی کی بوتل، ٹوپی اور سن بلاک ساتھ رکھنا مفید ہو گا۔
  • بچوں کو قلعے کی دیواروں یا پرانی تعمیرات پر چڑھنے نہ دیں، کیونکہ وہ غیر محفوظ ہو سکتی ہیں۔

نتیجہ

راوت قلعہ پاکستان کے ان قیمتی تاریخی ورثوں میں سے ایک ہے جو آج بھی اپنی شان و شوکت، قربانی اور مزاحمت کی کہانیاں سناتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسے مقامات کی حفاظت کریں، ان کی اہمیت کو اجاگر کریں اور ان کی بحالی کے لیے آواز اٹھائیں۔ کیونکہ قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو اپنی تاریخ کو یاد رکھتی ہیں۔